زندگی-زیست-حیات

زندگی میں موت ہے ، یا موت میں ہے زندگی

زندگی آوارگی کا ، موت گھر جانے کا نام

اعظم

ازل سے زندگی کیا مانگتے ہم

ازل خود کانپتی ہے زندگی سے

رتن پنڈوروی

ہر قدم ، دشواریوں کے باوجود

زندگی کے ، دن گزرتے ہی رہے

سیفی

لائی حیات آئے ، قضا لے چلی ، چلے

اپنی خوشی نہ آئے ، نہ ، اپنی خوشی چلے

ذوق

مر کے ٹوٹا ہے کبھی ، سلسلۂ قیدِ حیات

فرق اتنا ہے کہ ، زنجیر بدل جاتی ہے

فانی

زندگی ، زندہ دلی کا نام ہے

مردہ دل ، کیا خاک جیا کرتے ہیں

نامعلوم

کون سا جھونکا ، بجھا دے گا ، کسے معلوم ہے

زندگی کی شمع ، روشن ہے ، ہوا کے سامنے

نامعلوم

اب موت سے بھی ساہنیؔ ڈرتے نہیں ہیں ہم

جب سے غمِ حیات کو اپنا بنا لیا

اشوک ساہنی