زندگی-زیست-حیات

آ پڑا کچھ وقت ایسا گردشِ ایام سے

زندگی شرما رہی ہے ، زندگی کے نام سے

جگر

ہر حادثہ سے اور جو ، ہر زد سے ڈر گئی

وہ زندگی تو موت سے ، پہلے ہی مر گئی

منظر

غروبِ آفتابِ زندگی ہے

یہ کشتی اب کنارے لگ رہی ہے

شعلہ

جنہیں حسرت بہت تھی زندگی کی

انہیں کو مار ڈالا زندگی نے

شمیم جےپوری

نہایت مختصر ہے زندگانی

نہایت مختصر سامان رکھئے

طابش مہدی

گناہِ زندگی کرنے کی خاطر

بسا اوقات مر جانا پڑا ہے

عدم

ناکامیٔ حیات کا کرتے بھی کیا گلہ

دو دن گزارنے تھے ، گزارے ، چلے گئے

شکیل

موت بھی کیا ڈرائے گی ہم کو

موت میں بھی حیات پنہاں ہے

اشوک ساہنی