زندگی سے ہم ، رہے ناآشنا
سانس گو آتی رہی ، جاتی رہی
ناظر
ٹوٹے ہوئے شیشہ کی طرح ، بکھرے پڑے ہیں
وہ لمحے کہ جو زیست کا ، مفہوم رہے ہیں
نازش
ہستی کی راہ ، کٹ گئی ، بس تین گام میں
آئے برائے نام جئے ، اور مر گئے
مشیر جھنجھانوی
موت اک حادثہ سہی لیکن
زندگانی بھی اس سے کم نہیں
عظمت
زندگی میں جو اٹھا سکتے نہیں ، دو پھول بھی
سینکڑوں پتھر اٹھا لیتے ہیں ، مر جانے کے بعد
جگر جالندھری
موت سے وہ ، سبق نہیں ملتے
جو سبق ، زندگی سے ملتے ہیں
نسرت گوالیاری
غم سے ناطہ توڑ کر ، اے دل سدا پچھتائے گا
غم رفیقِ زندگی ہے ، ساتھ تیرے جائے گا
اشوک ساہنی