زندگی-زیست-حیات

زندگی سے تو ، خیر شکوہ تھا

مدتوں موت نے بھی ترسایا

نریش کمار شاد

زندگی سے ہم ، رہے ناآشنا

سانس گو آتی رہی ، جاتی رہی

ناظر

ٹوٹے ہوئے شیشہ کی طرح ، بکھرے پڑے ہیں

وہ لمحے کہ جو زیست کا ، مفہوم رہے ہیں

نازش

ہستی کی راہ ، کٹ گئی ، بس تین گام میں

آئے برائے نام جئے ، اور مر گئے

مشیر جھنجھانوی

موت اک حادثہ سہی لیکن

زندگانی بھی اس سے کم نہیں

عظمت

زندگی میں جو اٹھا سکتے نہیں ، دو پھول بھی

سینکڑوں پتھر اٹھا لیتے ہیں ، مر جانے کے بعد

جگر جالندھری

موت سے وہ ، سبق نہیں ملتے

جو سبق ، زندگی سے ملتے ہیں

نسرت گوالیاری

غم سے ناطہ توڑ کر ، اے دل سدا پچھتائے گا

غم رفیقِ زندگی ہے ، ساتھ تیرے جائے گا

اشوک ساہنی