پال لے ایک روگ ناداں زندگی کے واسطے
صرف صحت کے سہارے زندگی کٹتی نہیں
فراق
تو میری زندگی سے ہی کترا کے چل دیا
تجھ کو تو میری موت پہ بھی اختیار تھا
احمد سہارنپوری
اب ساتھ چھوڑ دے تو خطا زندگی کی کیا
ہم خود ہی اتنا تیز چلے تھے کہ تھک گئے
نامعلوم
کہی کسی سے نہ رودادِ زندگی میں نے
گزار دینے کی شے تھی ، گزار دی میں نے
حکیم مخمور
زندگی کے اداس لمحوں میں
بےوفا دوست یاد آتے ہیں
فیض
مری آزاد روح کو پھر سے قیدِ جسم مت دینا
بڑی مشکل سے کاٹی ہے سزائے زندگی میں نے
آزاد
رنگینیٔ حیات بڑھانے کے واسطے
پڑتی ہے حادثوں کی ضرورت کبھی کبھی
مرزا غالب
زندگی غم سے سنورتی ہے ، نہ گھبرا اے دوست!
حد سے بڑھ جائے اندھیرا ، تو سحر ہوتی ہے
اشوک ساہنی