سو سو امیدیں بندھتی ہیں اک اک نگاہ میں
مجھ کو نہ ایسے پیار سے دیکھا کرے کوئی
اقبال
دیکھا کئے وہ مست نگاہوں سے بار بار
جب تک شراب آئے کئی دور چل گئے
حسرت
کچھ تمہاری نگاہ کافر تھی
کچھ مجھے بھی خراب ہونا تھا
حجاز
تیری آنکھیں بھی مانگتی ہیں شراب
میکدے خود بھی جام پیتے ہیں
عدم
وہ آنکھ ہے حجاب کے عالم میں اس طرح
اک بادہ کش ہو جیسے کسی خانقاہ میں
نریش کمار شاد
کچھ تو ہے ویسے ہی رنگیں ، لب و رخسار کی بات
اور کچھ خونِ جگر ہم بھی ملا دیتے ہیں
آل احمد سرور
خواہش کا نام عشق ، نمائش کا نام حسن
اہلِ ہوس نے دونوں کی مٹی خراب کی
مرزا غالب
اے عشق دیکھ ہم ہیں کس دل کے آدمی
مہماں بنا کے غم کو کلیجہ کھلا دیا
داغ دہلوی