نہیں آتی جو یاد ان کی تو برسوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیںتو پیہم یاد آتے ہیں
حسرت
ان کی یاد ان کی تمناؤں کا غم
کٹ رہی ہے زندگی آرام سے
شکیل
جس کو تم بھول گئے یاد کرے کون اس کو
جس کو تم یاد ہو وہ اور کسے یاد کرے
جوش
غرض کی کاٹ دئے زندگی کے دن اے دوست
وہ تری یاد میں ہوں ، یا تجھے بھلانے میں
فراق
ہم میں ہی تھی نہ کوئی بات ، یاد نہ تم کو آ سکے
تم نے ہمیں بھلا دیا ہم نہ تمہیں بھلا سکے
حفیظ جالندھری
تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں
فیض
ہم نے سینہ سے لگایا ، دل نہ اپنا ہو سکا
مسکرا کر تم نے دیکھا ، دل تمہارا ہو گیا
جگر
پڑے تسبیحِ زاہد پر ، نگاہِ مست گر تیری
تو ٹپکے بادۂ انگور ، اس کے دانے دانے سے
ذوق