ہمیں تو مدتوں سے ہے تلاش ، اک ایسے انساں کی
ہماری زندگی کو بھی جو ، اپنی زندگی سمجھے
احسان دانش
ہندو ہی برا ہے ، نہ مسلمان برا ہے
آ جائے برائی پہ تو انسان برا ہے
پرویز شاہدی
بےخبر ہے ، اپنی عظمت سے ، نہیں ہے آشنا
سر فرشتوں کے جھکے ہیں آدمی کے سامنے
آزردہ دہلوی
دل کے آئینہ میں ہے تصویرِ یار
اک ذرا گردن جھکائی ، دیکھ لی
مومن
اور تو آئینہ میں ، عیب نہیں
صاف دل ہے ، یہی برائی ہے
حالی
کیوں جاؤں میں سوئے کعبہ اے شیخ
بت خانہ میں کیا ، خدا نہیں ہے
امیر
دل میں اپنے جسے پتہ نہ ملا
اس کو کعبہ میں بھی خدا نہ ملا
رند
ہے کس کا جگر جس پہ یہ بیداد کرو گے
لو ہم تمہیں دل دیتے ہیں کیا یاد کرو گے
سودا