عیسائی ہوں کہ ہندو ہوں مسلم ہوں خواہ سکھ
سب نام پر ہوں صلح کے قرباں خدا کرے
منور لکھنوی
یہ خون ہے جو دلِ غمزدہ کو بھر دے گا
یہ خون ہندو و مسلم کو ایک کر دے گا
منور لکھنوی
آ مذہبوں کے جھگڑے یک دم سبھی بھلا دیں
آ دل سے امتیازِ دیر و حرم مٹا دیں
منور لکھنوی
حرم کے پھول کلیسا کے پھول دیر کے پھول
جو مل گئے ہیں تو آئی ہے اس چمن میں بہار
درشن سنگھ
کسی رئیس کی محفل کا ذکر کیا ہے امیرؔ
خدا کے گھر بھی نہ جائیں گے بن بلائے ہم
امیر مینائی
وہ خود عطا کریں تو جہنم بھی ہے بہتر
مانگی ہوئی نجات مرے کام کی نہیں
جوش
فرشتوں سے بہتر ہے انسان ہونا
مگر اس میں ہوتی ہے محنت زیادہ
حالی
الٰہی سوزِ دل کی ، آدمی کو بھی ضرورت ہے
فقط پتھر کے سینہ کو شرر دینے سے کیا ہوگا
جوش