عمر بھر غالبؔ بھول یہی کرتا رہا
دھول چہرہ پہ تھی اور وہ آئینہ صاف کرتا رہا
مرزا غالب
آج اپنی فالتو چیزیں جدا کرتا ہوں میں
ہے کوئی جس کو شرافت چاہئے
نامعلوم
کچھ اس طرح سے زندگی کو میں نے آساں کر لیا
کسی سے معافی مانگ لی ، کسی کو معاف کر دیا
مرزا غالب
زاہد شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کر
یا وہ جگہ بتا دے جہاں پر خدا نہ ہو
اشوک ساہنی
مسجد خدا کا گھر ہے یہ پینے کی جا نہیں
کافر کے دل میں جا کہ وہاں پر خدا نہیں
نامعلوم
کافر کے دل سے آیا ہوں یہ دیکھ کر اشوکؔ
اس میں خدا تو ہے مگر اس کو پتا نہیں
اشوک ساہنی
سب کا مالک ایک ہے یارو چاہے سو ہوں نام
دیوالی میں علی ملے گا محرم میں رام
اشوک ساہنی
جن کے آنگن میں دولت کے شجر اگتے ہیں
ان کے ہر عیب دنیا کو ہنر لگتے ہیں
نامعلوم