مزہ برسات کا چاہو تو ان آنکھوں میں آ بیٹھو
سفیدی ہے ، سیاہی ہے ، شفق ہے ، ابرِ باراں ہے
ثاقب لکھنوی
در و دیوار پہ حسرت سے نظر کرتے ہیں
خوش رہو اہلِ وطن ہم تو سفر کرتے ہیں
واجد علی شاہ
زندہ رہنا ہے تو میرِ کارواں بن کر رہا
اس زمیں کی پستیوں میں آسماں بن کر رہو
جوش ملیح آبادی
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ اتے گئے اور کارواں بنتا گیا
مجروح سلطانپوری
منزل کے تماشائی ہر ڈوبنے والے پہ
افسوس تو کرتے ہیں امداد نہیں کرتے
فنا کانپوری
کتنے سکوں سے کاٹ دی پرکھوں نے زندگی
جو مل گیا نصیب سے چپ چاپ کھا لیا
اشوک ساہنی
گھروں پہ نام تھے ناموں کے ساتھ کے عہدے تھے
بہت تلاش کیا کوئی آدمی نہ ملا
نامعلوم
ہم وپ دریا ہیں جسے اپنا ہنر معلوم ہے
جس طرف بھی چل پڑیں گے راستے بن جائیں گے
نامعلوم