اک تم ہو کہ کشتی کو طوفاں میں ڈوبو بیٹھے
اک ہم ہیں کہ طوفاں کو کشتی میں ڈبوتے ہوئے
ساغر نظامی
کیسے کیسے تیرنے والوں کو دریا کھا گیا
بچ گیا وہ شخص جس کے ہاتھ میں تنکا نہ تھا
شاعر جمالی
اے ناخدا! سفینہ کا اب کوئی غم نہ کر
ہم فرض کر چکے ہیں کہ ساحل نہیں رہا
عدم
عشق جب تک نہ کر چکے رسوا
آدمی کام کا نہیں ہوتا
نامعلوم
عشق میں خواب کا خیال کسے
نہ لگی آنکھ جب سے آنکھ لگی
نامعلوم
محبت اس طرح معلوم ہو جاتی ہے دنیا کو
کہ یہ معلوم ہوتا ہے ، نہیں معلوم ہوتی ہے
اختر شیرانی
ڈھونڈھ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
احمد فراز
پیدا ہوئے تو ہاتھ جگر پر دھرے ہوئے
کیا جانے ہم ہیں کب سے کسی پر مرے ہوئے
نامعلوم