اے مرے ہم نشیں چل کہیں اور چل
اس چمن میں اب اپنا گزارا نہیں
نامعلوم
بات ہوتی گلوں کی تو سہہ لیتے
اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں
نامعلوم
ہم نے اپنے آشیانہ کے لئے
جو چبھیں دل میں وہی تنکے لئے
نامعلوم
غمِ ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جزمرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
مرزا غالب
ذرا دیکھ پروانہ کروٹ بدل کر
ستی ہو گئی شمع محفل میں جل کر
ثاقب لکھنوی
رات جیوں شمع کٹی ، ہم کو جو روتے روتے
بہہ گئے اشکوں میں ہم ، صبح کے ہوتے ہوتے
ذوق
غمخوار ہے کوئی ، نہ کوئی غمگسار ہے
مرنے کو ہم ہیں ، رونے کو شمعِ مزار ہے
میلا رام وفا
منجدھار تک پہنچنا تو ہمت کی بات تھی
ساحل کے آس پاس ہی طوفان بن گئے
عدم