اس جانِ مےکدہ کی قسم بارہا جگرؔ
کل عالمِ بسیط پہ میں چھا کے پی گیا
جگر
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
اقبال
کوئی ان پھولوں کی قسمت دیکھنا
زندگی کانٹوں میں پل کر رہ گئی
نامعلوم
جب سے بلبل! تو نے دو تنکے لئے
لوٹتی ہیں بجلیاں ان کے لئے
امیر مینائی
قفس و آشیاں کا فرق اے صیاد سن مجھ سے
یہ تیری دستکاری ہے ، اسے میں نے بنایا ہے
ثاقب لکھنوی
نشیمن ہی کے لٹ جانے کا غم ہوتا تو کیا ہوتا
یہاں تو بیچنے والوں نے گلشن بیچ ڈالا ہے
علی جلیل
ہوتا نہیں ہے کوئی برے وقت میں شریک
پتے بھی بھاگتے ہیں خزاں میں شجر سے دور
نامعلوم
کانٹوں نے مبارک کام کیا
پھولوں کی حفاظت کر بیٹھے
نامعلوم