ہم اپنے شہر میں محفوظ بھی ہیں خوش بھی ہیں
یہ سچ نہیں ہے مگر اعتبار کرنا ہے
راحت اندوری
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی پہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا
پروین شاکر
جو پڑی دل پہ سہہ گئے لیکن
ایک نازک سی بات نے مار ڈالا
نامعلوم
غم کا طوفاں بھی گزر ہی جائے گا
مسکرا دینے کی عادت چاہئے
نامعلوم
سب کی نظروں میں ہو ساقی یہ ضروری ہے مگر
سب پہ ساقی کی نظر ہو یہ ضروری تو نہیں
خاموش دہلوی
مجھے شرع سے کوئی چڑھ نہیں ، پر اس اتفاق کا کیا کروں
کہ جو وقت بادہ کشی کا ہے وہی وقت بھی ہے نماز کا
نامعلوم
آدم کو مت خدا کہو ، آدم خدا نہیں
لیکن خدا کے نور سے آدم جدا نہیں
نامعلوم
دیر کعبہ سے جدا ، کعبہ کلیسا سے جدا
ان کو میخانہ کے سنگم پہ ملا دے ساقیا
نامعلوم