سوچتا ہوں سیکھ لوں مکاریاں
بیٹھنا ہے آج کچھ یاروں کے بیچ
نامعلوم
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچہ نہیں ہوتا
نامعلوم
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
نامعلوم
وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
مرزا غالب
موت کا بھی علاج ہو شاید
زندگی کا کوئی علاج نہیں
فراق
کل جو اٹھتے تھے بٹھانے کے لئے
آج بیٹھے ہیں اٹھانے کے لئے
نامعلوم
محفل ان کی ساقی ان کا
آنکھیں اپنی باقی ان کا
اکبر