ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
مرزا غالب
اک تنکے نے کسی طوفان کے
ساتھ اڑکر جا لیا آکاش چھو
نامعلوم
یہ عشق نہیں آساں ہم نے تو یہ جانا ہے
کاجل کی لکیروں کو آنکھوں سے چرانا ہے
نامعلوم
جان لینی تھی لے لئے ہوتے
مسکرانے کی کیا ضرورت تھی
نامعلوم
جب ملی آنکھ ہوش کھو بیٹھے
کتنے حاضر جواب ہیں ہم لوگ
جگر
محبت ، عداوت ، وفا ، بےرخی
کرائے کے گھر تھے بدلتے رہے
بشیر بدر
سیتا کی آبرو کا ہے تجھ کو اگر خیال
راموں کے بھیس میں چھپے راون تلاش کر
نامعلوم