امیرؔ جاتی جوانی ، یہ مجھ سے کہتی ہے
خزاں نہ مجھ کو سمجھ ، آخری بہار ہوں میں
امیر مینائی
یہ کس نے شاخِ گل لا کر قریبِ آشیاں رکھ دی
کہ میں نے شوقِ گل بوسی میں کانٹوں پر زباں رکھ دی
سیماب اکبر آبادی
پھولوں کے تو قابل نہیں شاید میرا دامن
اے صاحبِ گلشن اسے کانٹوں ہی سے بھر دے
شاد
وہ شاخِ گل پہ رہیں یا کسی کی میت پر
چمن کے پھول تو عادی ہیں مسکرانے کے
قدیر لکھنوی
کانٹے کی رگ میں بھی ہے لہو سبزہ زار کا
پالا ہوا ہے وہ بھی نسیمِ بہار کا
جوش ملیح آبادی
مرے خیال میں دنیا اجڑ گئی میری
ترے خیال میں تنکے تھے آشیانہ کے
داغ دہلوی
کیا آ گیا خیال دلِ بےقرار میں
خود آشیاں کو آگ لگا دی بہار میں
جگر مرادآبادی
چار تنکے ہی صحیح مگر صیاد
میری دنیا تھی آشیانہ میں
قیس منگوری