شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لئے
ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں
قتیل
کبھی جو گورِ غریباں ، میں یار آ جائے
دعائیں دوں اسے مرقد سے میں نکال کے ہاتھ
جلیل مانک پوری
جنہیں پھر گردشِ افلاک پیدا کر نہیں سکتی
کچھ ایسی ہستیاں بھی دفن ہیں گورِ غریباں میں
مخمور دہلوی
گلے میں ڈال کر پھندا کہا منصور نے یا رب
خوشی سے دار پر چڑھ کر ترا دیدار دیکھیں گے
امیر مینائی
نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری ، راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں ، ہم بیزار بیٹھے ہیں
انشا
اشکوں سے تر ہے پھول کی ہر ایک پنکھڑی
رویا ہے کون ، تھام کے ، دامن بہار کا
نظیر بنارسی
کوئی سایہ نہ شجر یاد آیا
تھک گئے پاؤں تو گھر یاد آیا
راشد حامدی
نہ تابِ ہستی ، نہ ہوشِ مستی ، کہ شکرِ نعمت ادا کریں گے
خزاں میں جب ہے یہ اپنا عالم بہار آئی تو کیا کریں گے
جگر مرادآبادی