نگاہ پڑتی ہے جس وقت دل کے داغوں پر
تو ایک دوست کے احسان یاد آتے ہیں
شمیم کرہانی
کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست
سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا
ساحر لدھیانوی
رہتی ہے مجھ کو سارے زمانہ سے آشتی
دشمن اگر ہیں سات تو ستر ہزار دوست
امیر مینائی
دوستوں کو بھی ملے درد کی دولت یا رب
میرا اپنا ہی بھلا ہو مجھے منظور نہیں
حفیظ جالندھری
اس سے بڑھ کر دوست کوئی دوسرا ہوتا نہیں
سب جدا ہو جائیں لیکن غم جدا ہوتا نہیں
عدم
دل ابھی پوری طرح ٹوٹا نہیں
دوستوں کی مہربانی چاہئے
اختر
میری بے کسی کا عالم ، مجھے عمر بھر مبارک
میرے دوست کش اب بھی میرا ساتھ چھوڑ دیتے
امرت لال عشرت
وصل کی شب اور اتنی مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لئے
امیر مینائی