ہے حصولِ آرزو کا نام ترکِ آرزو
میں نے دنیا چھوڑ دی تو مل گئی دنیا مجھے
سیماب اکبرآبادی
مجھ کو یہ آرزو وہ اٹھائیں نقاب خود
ان کو یہ آرزو تقاضا کرے کوئی
مجاز لکھنوی
ہر اک داغِ تمنا کو کلیجہ سے لگاتا ہوں
کہ گھر آئی ہوئی دولت کو ٹھکرایا نہیں جاتا
مخمور دہلوی
بیٹھے ہیں راہِ دوست میں ہم پاؤں توڑ کر
اب فکر کیا ہے منزلِ دشوار کے لئے
داغ دہلوی
دشمن سے بڑھ کے کوئی نہیں آدمی کے دوست
منظور اپنے حال کی اصلاح ہو اگر
حالی
مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقتِ دفن
زندگی بھر کی محبت کا سلہ دینے لگے
ثاقب
تیرے جلووں نے مجھے گھیر لیا ہے اے دوست
اب تو تنہائی کے لمحے بھی حسیں ہوتے ہیں
سیماب اکبرآبادی
دشمنوں نے تو دشمنی کی ہے
دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے
فراق