بیمارِ غم ، مسیح کو بدنام کر گیا
جھپکا ، اٹھا ، سلام کیا ، گر کے مر گیا
حفیظ جالندھری
تمہارا نام سن کر کھول دیں بیمار نے آنکھیں
تمہارے نام پر کمبخت مر جاتا تو اچھا تھا
ندیم
وہ آئے ہیں پشیماں لاش پر اب
تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے
مومن
کیا ناخدا بغیر کوئی ڈوبتا نہیں
مجھ کو مرے خدا سے پشیماں نہ کیجئے
حفیظ جالندھری
جو ابتدائے سفر میں دئے بجھا بیٹھیں
وہ بدنصیب کسی کا سراغ کیا پائیں
احمد ندیم قاسمی
جو کلیاں پھول بن جاتی ہیں وہ مرجھا بھی جاتی ہیں
ہنسی کی انتہا کو ابتدائے غم بھی کہتے ہیں
آزاد
ہنستے ہوئے پھولوں کا گریباں نہیں دیکھا
کیا آپ نے انجامِ بہاراں نہیں دیکھا
جرم محمد آبادی
یہ چاہتا ہے شوق ، کہ قاصد بجائے مہر
آنکھ اپنی ہو لفافۂ خط پر لگی ہوئی
ذوق