ہم طالبِ شہرت ہیں ، ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
شیفتہ
دفعتاً ترکِ تعلق میں بھی رسوائی ہے
الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر
داغ دہلوی
یہ کیا انصاف ہے یا رب کرے کوئی بھرے کوئی
نگاہوں کی خطا ہوتی ہے دل بدنام ہوتا ہے
اختر شیرانی
مر گیا پر نہ مسیحا کا ، ہوا منت کش
تیرا بیمار مری طرح ، کوئی ہو تو سکے
بہادر شاہ ظفر
لو اس بات پہ مرتے ہیں ، کرو تو زندہ
تم کو دعویٰ تو بہت کچھ ہے مسیحائی کا
عزیز لکھنوی
لطف اٹھائیں لبِ جاناں کی مسیحائی کا
لوگ اس شوق میں بیمار ہوئے جاتے ہیں
خلیل مانک پوری
لو مسیحا نے بھی ، اللہ نے بھی یاد کیا
تیرے بیمار کو ہچکی بھی ، قضا بھی آئی
فانی
جب مسیحا دشمنِ جاں ہو تو کیوں کر ہو علاج
کس طرح راستہ طے ہو جب خضر بہکانے لگے
بسمل سعیدی