کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں
عشق توفیق ہے گناہ نہیں
فراق
دنیا سے جا رہا ہوں چھپا کر کفن سے منہ
افسوس بعد مرنے کے ، آئی حیا مجھے
میر
دنیائے نامراد کا انجام دیکھ کر
دستِ سکندری بھی کفن سے نکل گیا
نسیم
ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی
اقبال
بےوفائی پہ تری جی ہے فدا
قہر ہوتا جو باوفا ہوتا
میر اثر
خوشی نہ ہو مجھے کیوں کر قضا کے آنے کی
خبر ہے لاش پہ اس بےوفا کے آنے کی
مومن
تری اس بےوفائی پر فدا ہوتی ہے جاں اپنی
خدا جانے اگر تجھ میں ، وفا ہوتی تو کیا ہوتا
بہادر شاہ ظفر
بےوفائی گلوں کی ، بجا تھی مگر
اب تو کانٹیں بھی دامن بچانے لگے
کیف صدیقی