پتہ یوں تو بتاتے ہیں وہ سب کو لامکاں اپنا
مگر معلوم ہے رہتے ہیں وہ ٹوٹے ہوئے دل میں
انیس داؤد نگری
نہ غرض کفر سے رکھتے ہیں ، نہ اسلام سے کام
مدعا ساقی سے ہے ، اور ہمیں ، جام سے کام
سودا
مرے صنم کا کسی کو نشاں نہیں معلوم
خدا کا نام سنا ہے ، نشاں نہیں معلوم
آتش
جلوے مری نگاہ میں کون و مکاں کے ہیں
مجھ سے کہاں چھپیں گے وہ ایسے کہاں کے ہیں
داغ دہلوی
دن کو دن ، رات کو رات کہتے ہوئے
لوگ ڈرتے ہیں ، حق بات کہتے ہوئے
عزیز بگھروی
عقل میں جو گھر گیا ، لاانتہا کیوں کر ہوا
جو سمجھ میں آ گیا ، پھر وہ خدا کیوں کر ہوا
اکبر الٰہ آبادی