ہے زمانہ کی تو ، فطرت ہی گرا دینے کی
دوستو! کام تمہارا ہے ، سنبھلتے رہنا
عمر انصاری
مسکراتے ہوئے پھولوں نے کہا شبنم سے
فطرتِ غم سے یہاں کوئی بھی آزاد نہیں
ماھر القادری
اپنی فطرت کے تقاضے سے ہر اک مجبور ہے
چھوٹ سکتا ہے مزاجِ عشق پروانے سے کیا
مخمور دہلوی
نہیں معلوم کیا ایسی کشش ہے حسنِ فطرت میں
محبت کے لئے ہر آدمی مجبور ہوتا ہے
صادق
مست بادل وہ بڑھا ، چاند کا بوسہ لینے
آج فطرت بھی گنہ گار نظر آتی ہے
نظیر بنارسی
فطرت کبھی نہ لالہ و گل کی بدل سکی
آ آ کے انقلاب گلستاں میں رہ گئے
نامعلوم
گلہ نہیں ہے مجھے آپ سے کہ بھول گئے
مرے خدا کو بھی عادت ہے بھول جانے کی
جوش ملسیانی
خو ہے خاروں کی ، خار کھانے کی
گل کی عادت ہے مسکرانے کی
اشوک ساہنی