کون فطرت کے تقاضوں کو بدل سکتا ہے
شمع ہر حال میں چاہے گی فروزاں ہونا
شاد عارفی
ہجومِ غم مری فطرت بدل نہیں سکتے
میں کیا کروں مجھے عادت ہے مسکرانے کی
مخمور دہلوی
یہ طرزِ صاف بیانی ہماری فطرت ہے
اسی لئے تو ہمارا کہیں نباہ نہیں
دؤاکر راہی
کسی کی شوخیٔ فطرت بدل نہیں سکتی
اگر چہ کانٹوں کی صحبت ، میں ہے کلی یارو
واجد سحری
فطرتِ حسن بھلا کیسے بدل سکتی ہے
وہ بھی ناداں ہیں جو امیدِ وفا کرتے ہیں
تمنا سیتا پوری
کیا لذتِ گناہ سے واقف نہیں ہے شیخ
فطرت میں ہے گناہ تو انسان کیا کرے
اشوک ساہنی