مےکشو! حضرتِ زاہد کی تلاشی لینا
کہ چھپائے ہوئے وہ جام لئے جاتے ہیں
داغ دہلوی
مجھے اٹھانے کو آیا ہے واعظِ ناداں
جو اٹھ سکے تو مرا ساغرِ شراب اٹھا
جگر
میں جانتا ہوں آپ کو اے حضرتِ واعظ!
داڑھی کے سوا آپ نے کس چیز کو چھوڑا
فارغ بخاری
لطفِ مے تجھ سے کیا کہوں زاہد
ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں
داغ دہلوی
رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
تجھ کو پرائی کیا پڑی ، اپنی نبیڑ تو
ذوق
اس طرف رخ تری رحمت کا جو دیکھا دمِ حشر
مل گئے دوڑ کے زاہد بھی گنہ گاروں میں
نامعلوم
اتنا کہاں تھا ہوش کہ مسجد سدھارتے
واعظ نے مےکدہ میں مصلّیٰ بچھا لیا
اشوک ساہنی