واعظ-زاہد-ناصح-شیخ

پی شوق سے واعظ!، ارے کیا بات ہے ڈر کی

دوزخ ترے قبضہ میں ہے ، جنت ترے گھر کی

شکیل

تری مسجد میں واعظ! ، خاص ہیں اوقات رحمت کے

ہمارے میکدہ میں رات دن ، رحمت برستی ہے

امیر مینائی

مے پی تو سہی ، توبہ بھی ہو جائے گی زاہد!

کمبخت قیامت ابھی آئی نہیں جاتی

جگر

ہو گیا کیا ، مریدِ مے زاہد!

اب تو چہرہ پہ نور رہتا ہے

جگر

ناصح کو بلاؤ ، مرا ایمان سنبھالے

پھر دیکھ لیا اس نے شرارت کی نظر سے

حفیظ جالندھری

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غمگسار ہوتا

مرزا غالب

زاہد شراپ پینے سے کافر ہوا میں کیوں

کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا

ذوق

تر بہ تر ہے شیخ کا دامن ، لبالب ہے برہمن کا کمنڈل بھی

اس پہ بھی کرتے ہیں رندوں سے ، وہ دعویٰ پارسائی کا

اشوک ساہنی