مے-شراب-مینا

یہ بزمِ مے ہے یاں ، کوتاہ دستی میں ہے محرومی

جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں ، مینا اسی کا ہے

نامعلوم

بے پئے ہی شراب سے نفرت

یہ جہالت نہیں تو پھر کیا ہے

ساحر

پوچھئے مے کشوں سے لطفِ شراب

یہ مزہ پاکباز کیا جانیں

داغ دہلوی

ہم مے کشوں کو ڈر نہیں مرنے کا محتسب!

فردوس میں بھی سنتے ہیں نہرِ شراب ہے

ناسخ

خیر دوزخ میں مے ملے نہ ملے

شیخ صاحب سے جاں تو چھوٹے گی

فیض

مے پرستوں کی ساقی گری کے لئے

شیخ صاحب جہنم میں ڈالے گئے

اشوک ساہنی