ذکر اس پری وش کا ، اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر ، تھا جو رازداں اپنا
مرزا غالب
ایک مدت میں حقیقت یہ کھلی
دوستی کی انتہا ہے دشمنی
اشوک ساہنی
دلِ احباب میں اخلاص کہاں ہوتا ہے
جان دو جس پہ ، وہی دشمنِ جاں ہوتا ہے
طاہر تلہری
حیات میں کئی ایسے مقام آتے ہیں
مرے رقیب جہاں میرے کام آتے ہیں
اقبال آزر
دشمن تو کہہ رہا ہے کہ ، ہتھیار ڈال دے
احباب کہہ رہے ہیں کہ ، دستار ڈال دے
راشد حامدی
عدو پر اس قدر ، احسان پر ، احسان کرتا جا
کہ دشمن دوستی کرنے پر خود مجبور ہو جائے
اشوک ساہنی