ظلم و ستم - رحم و کرم

جو ستم غیر کے قابل تھا ، وہ مجھ پر ہوتا

کاش تو میرے اکیلے کا ستم گر ہوتا

نامعلوم

تیرا کرم تو عام ہے دنیا کے واسطے

ہم کتنا لے سکے یہ مقدر کی بات ہے

نامعلوم

فرقِ غم و نشاط تو کہنے کی بات ہے

ورنہ ترا ستم بھی ترا التفات ہے

شاد

تقدیر کے قدموں میں سر رکھ کے پڑے رہنا

تائیدِ ستم گر ہے چپ رہ کے ستم سہنا

نامعلوم

ستونِ دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ

جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے

فیض

اگر ظلم چپ چاپ سہتے رہیں گے

مظالم بھی ظالم کے بڑھتے رہیں گے

اشوک ساہنی