امید-توقع-آس

ترکِ امید بس کی بات نہیں

ورنہ امید کب کی بر آتی

فانی

کہتے ہیں جیتے ہیں امید پہ لوگ

ہم کو جینے کی بھی امید نہیں

مرزا غالب

ہزار شکر کہ مایوس کر دیا تو نے

یہ اور بات کہ تجھ سے بہت امیدیں تھیں

نامعلوم

کرم کی توقع تو کیا تم سے ہوگی

ستم بھی کرو گے تو احسان ہوگا

نامعلوم

اتنا بھی ناامید دلِ کم نظر نہ ہو

ممکن نہیں کہ شامِ الم کی سحر نہ ہو

شاد

ہم کو ان سے وفا کی ہے امید

جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

مرزا غالب

مرنے کے بعد کس سے توقع رکھیں اشوکؔ

جب میری زندگی نے بھی مجھ سے وفا نہ کی

اشوک ساہنی