امید-توقع-آس

جب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ

کیا کسی سے گلہ کرے کوئی

مرزا غالب

سو سو امیدیں بندھتی ہیں اک اک نگاہ سے

مجھ کو نہ ایسے پیار سے دیکھا کرے کوئی

اقبال

وفا کا حوصلہ بڑھتا ، امیدیں زندہ ہو جاتیں

بلا سے بجلیاں گرتیں ، مگر تم مسکرا دیتے

شفیق

جان پڑ جائے گی اک دن اسی امید میں ہوں

تیری تصویر کو سینہ سے لگا رکھا ہے

خانور

اس زندگی سے موت ہی بہتر سہی مگر

زندہ ہوں اس لئے ترے ملنے کی آس ہے

مظھر

ناامیدی سے نہیں بڑھ کے ہے کوئی امید

یاس کھوئی ہوئی منزل کا نشاں ہوتی ہے

مخمور دہلوی

آہٹ پہ کان ، در پہ نظر ، دل میں اشتیاق

کچھ ایسی بےخودی ہے ترے انتظار میں

نامعلوم

ہم کو ہر غم دیا ہے اپنوں نے

ہم کو اپنوں سے کچھ امید نہیں

اشوک ساہنی