زمیں-آسماں-فلک-عرش

جی کانپتا ہے خلد میں رکھتے ہوئے قدم

ڈر ہے کہ اس زمیں پہ بھی آسماں نہ ہو

بیخود

جورِ افلاک کی شرکت کی ضرورت کیا ہے

آپ کافی ہیں زمانہ کو ستانے کے لئے

صفدر

جنہیں زمین پہ رہنے کا بھی شعور نہیں

انہیں کا ہے یہ تقاضا کہ آسماں لے لو

نامعلوم

الفت کا نشہ جب کوئی مر جائے تو جائے

یہ دردِ سری وہ ہے کہ سر جائے تو جائے

فراق

آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے

بادلو ہٹ جاؤ دے دو راہ ، جانے کے لئے

نامعلوم

اس نیلے آسماں سے مایوس ہو گئے ہم

مٹی کے آسماں سے چل قبر ہی سجا لیں

اشوک ساہنی