شیخ و برہمن

شیخ صاحب! مقابلہ کیسا آپ کا ، ہم شراب نوشوں سے

ایک عصمت فروش بہتر ہے ، آپ جیسے خدا فروشوں سے

شاد

یقیں تھا شیخ کو جنت میں جام کھنکیں گے

اسی خوشی میں وہ پیاسا ہی مر گیا ہوگا

قتیل

باقی ہے شیخ کو ابھی حسرت گناہ کی

کالا کرے گا منہ بھی جو داڑھی سیاہ کی

ذوق

شیخ قاتل کو مسیحا کہہ گئے

محترم کی بات کو جھٹلائیں کیا

حفیظ میرٹھی

یہ مسجد ہے یا مےخانہ ، تعجب اس پہ آتا ہے

جنابِ شیخ کا نقشِ قدم ، یوں بھی ہے اور یوں بھی

سائل

واعظ جی کو شب کیا سوجھی رندوں کو سمجھانے آئے

صبح کو سارے میکش ان کو مسجد تک پہنچانے آئے

اشوک ساہنی

قرض لایا ہے کوئی بھیس بدل کر شاید

مے فروشوں کا ہے واعظ سے تقاضا کیسا

نامعلوم

تر بہ تر ہے شیخ کا دامن ، لبالب ہے برہمن کا کمنڈل بھی

اس پہ بھی کرتے ہیں رندوں سے ، وہ دعویٰ پارسائی کا

نامعلوم