حسن و عشق

عشق دل میں رہے تو رسوا ہو

لب پہ آئے تو راز ہو جائے

فیض

ایک تو حسنِ بلا اس پہ بناوٹ آفت

گھر بگاڑیں گے ہزاروں کا ، سنورنے والے

داغ دہلوی

یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجے

اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

جگر

عشق کا ذوقِ نظارہ مفت میں بدنام ہے

حسن خود بیتاب ہے جلوہ دکھانے کے لئے

مجاز

عشق دنیا سے بےخبر ہے مگر

پیٹ کی بات جان لیتا ہے

فراق

عشق کا اظہار آساں ہے اشوکؔ

عشق کا پیشہ بہت دشوار ہے

اشوک ساہنی