نہ کوئی وعدہ ، نہ کوئی یقیں ، نہ کوئی امید
مگر ہمیں تو ترا انتظار کرنا تھا
فراق
مجھ کو یہ آرزو وہ اٹھائیں نقاب خود
ان کو یہ انتظار تقاضا کرے کوئی
مجاز
عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
ظفر
اللہ رے بےخودی کہ ترے پاس بیٹھ کر
تیرا ہی انتظار کیا ہے کبھی کبھی
شاد
اب ان حدود میں لایا ہے انتظار مجھے
وہ بھی آ جائیں تو آئے نہ اعتبار مجھے
خمار
کہتے ہیں لوگ موت سے بدتر ہے انتظار
میری تمام عمر کٹی انتظار میں
مجاز
غضب کیا ترے وعدہ ، پہ اعتبار کیا
تمام عمر قیامت کا ، انتظار کیا
مرزا
اس کے آنے کا انتظار ہے مجھ کو
بعد مرنے کے منہ مرا کھلا رکھنا
اشوک ساہنی