انتظار-منتظر

تیرے آنے کی کیا امید مگر

کیسے کہہ دوں کہ انتظار نہیں

فراق

قبر میں روزن ، مری رکھنا ضرور

مر گیا ہوں ، انتظارِ یار میں

آتش

کوئی آیا ، نہ آئے گا ، لیکن

کیا کریں ، گر نہ ، انتظار کریں

فراق

کہیں وہ آ کے مٹا دیں ، نہ انتظار کا لطف

کہیں قبول نہ ہو جائے ، التجا میری

حسرت

موت کا انتظار باقی ہے

آپ کا انتظار تھا ، نہ رہا

فانی

اپنے شانوں پہ سر سلامت رکھ

اب سہاروں کا انتظار نہ کر

اشوک ساہنی