ناز-انداز-نزاکت-ادا

سخت نازک مزاج ، دلبر تھا

خیر گزری کہ دل بھی ، پتھر تھا

نامعلوم

یہ نازِ حسن تو دیکھو کہ دل کو تڑپا کر

نظر ملاتے نہیں ، مسکرائے جاتے ہیں

جگر

ہوا کے ساتھ سو سو ، کھا گئے بل

نزاکت دیکھئے ان کی ، کمر کی

یک رنگ

کیسے کیسے وہ ابھرتی ہیں بدن کی لہریں

ڈگمگایا ہے نگاہوں کا سفینہ کیا کیا

قتیل شفائی

تجھ کو برباد تو ہونا تھا بہرحال خمارؔ

ناز کر ناز ، کہ اس نے تجھے برباد کیا

خمار

کیا چیز تھی ، کیا چیز تھی ظالم کی نظر بھی

اف کہہ کے وہیں بیٹھ گیا دل بھی جگر بھی

جگر

اے نزاکت ترے قربان کہ وقتِ رخصت

وہ کہیں ہم سے کہ گھر تک نہیں جایا جاتا

داغ دہلوی

وہ جو آئے گلستاں میں ناز سے

شاخِ گل بھی شرم سے دوہری ہوئی

اشوک ساہنی