ناز-انداز-نزاکت-ادا

کیا نزاکت ہے کہ ، عارض ، ان کے نیلے پڑ گئے

ہم نے تو بوسہ لیا تھا ، خواب میں ، تصویر کا

نامعلوم

ہے نزاکت بھی بڑی چیز مگر یہ بھی کیا

سر سے ڈھلکا جو دوپٹّا تو سنبھالا نہ گیا

شفق طاہری

ناز ہے گل کو ، نزاکت پہ ، چمن میں اے ذوقؔ

اس نے دیکھے ہی نہیں ، ناز نزاکت ، والے

ذوق

شیشۂ دل کی نزاکت کا ہمیں احساس ہے

حشر کیا ہوگا اگر پتھر سے ٹکرا جائے گا

مخمور دہلوی

شب کو کسی کے خواب میں آیا نہ ہو کہیں

دیکھتے ہیں آج اس ، بتِ نازک بدن ،کے پاؤں

مرزا غالب

روپ کو دھوپ میں آیا ہے پسینہ کیا کیا

اپنے سائے سے ، لجائی ہے ، حسینہ کیا کیا

قتیل شفائی

کہاں یہ سختیٔ عالم ، کہاں دلِ نازک

عجب ہے شیشہ اٹھائے ، جو بوجھ پتھر کا

امیر مینائی

نازکی تو مرے محبوب کی دیکھے کوئی

گل کو چھوتے ہی پڑے ، ہاتھ میں چھالے ان کے

اشوک ساہنی