ناز-انداز-نزاکت-ادا

ہزار برق نے چل پھر کے مشق کی لیکن

ادا نہ آئی مگر ، تیرے مسکرانے کی

امیر مینائی

اک ادا ، اک حجاب ، اک شوخی

نیچی نظروں میں ، کیا نہیں ہوتا

اصگر گونڈوی

کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے

جب تک ہمارے پاس رہے ، ہم نہیں رہے

جگر

سانس لیتی ہے وہ زمین فراقؔ

جس پہ وہ ناز سے گزرتے ہیں

فراق

نازکی ختم ہے ان پر جو یہ فرماتے ہیں

فرشِ مخمل پہ مرے پاؤں چھلے جاتے ہیں

نامعلوم

اف! ترے حسن کا اندازِ نزاکت توبہ

اک قیامت ہے ، قیامت ہے ، قیامت توبہ

اشوک ساہنی