آنکھ

ممکن ہے کل ، زبان و قلم پر ہوں بندشیں

آنکھوں کو گفتگو کا سلیقہ سکھائیے

نامعلوم

مجھ کو شکوہ ہے اپنی آنکھوں سے

تم نہ آئے تو نیند کیوں آئی

نامعلوم

ذکر کرتے ہوئے ان آنکھوں کا

ہم چلے آئے ہیں میخانہ تک

نامعلوم

تصویر سی کھنچ جاتی ہے بند کرتے ہی آنکھیں

مجھ سا بھی مصور کوئی دنیا میں ہوا کیا

نامعلوم

آنکھ کی بند اور ہوا موجود

کوئی مجھ سا بھی بت تراش نہیں

نامعلوم

میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں

ساری مستی شراب کی سی ہے

نامعلوم

کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے

تیری آنکھوں کی نیم خوابی سے

نامعلوم

دل تو شوقِ دید میں تڑپا کیا

آنکھ ہی کم بخت شرماتی رہی

نامعلوم