خودی-بےخودی

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

اقبال

بےخودی بےسبب نہیں غالبؔ

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

مرزا غالب

میں بےخودی میں بھول گیا سب کو اے جلیلؔ

قدرت خدا کی ہے کہ وہ بت یاد رہ گیا

جلیل

بےخودی لے گئی کہاں ہم کو

دیر سے انتظار ہے اپنا

میر

اللہ رے بےخودی! کہ ہم ان کے روبرو

بےاختیار انہیں کو پکارے چلے گئے

شکیل

بےخودی میں کہہ دیا اس کو خدا

اس کا کفارہ ، بہت مہنگا پڑا

اشوک ساہنی