وفا-جفا

عادت سی ہو گئی ہے ، شکایت کی کچھ ہمیں

بیزار تو نہیں ہیں تمہاری جفا سے ہم

عرش

ان جفاؤں پر تری اے حسنِ دوست!

کیوں وفاؤں کا گماں ہوتا نہیں

فراق

وفا تجھ سے اے بےوفا! چاہتا ہوں

مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

حسرت

جتنی وہ مرے حال پہ کرتے ہیں جفائیں

آتا ہے مجھے ان کی محبت کا یقیں اور

عرش

یاد رہ جائے گی جفا تیری

دن گزر جائیں گے مصیبت کے

داغ دہلوی

یوں وفا اڑ گئی زمانے سے

کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں

داغ دہلوی

تم نہ توبہ کرو ، جفاؤں سے

ہم وفاؤں سے توبہ کرتے ہیں

ساحر ہوشیارپوری

تمام عمر نہ آیا وہ بےوفا لیکن

تمام عمر مجھے اس کا انتطار رہا

اشوک ساہنی