ہجر-و-وصال

وصل میں رنگ اڑ گیا میرا

کیا جدائی کو منہ دکھاؤں گا

میر

دردِ فراق ہی میں کٹی ساری زندگی

گرچہ ترا وصال ، بڑا کام بھی نہ تھا

فراق

اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے

تری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے

حفیظ

نہ وہ آرامِ جاں آیا ، نہ موت آئی شبِ وعدہ

اسی دھن میں ہم اٹھ اٹھ کے ، ہزاروں بار بیٹھے ہیں

دل شاہجہانپوری

وصل میں خالی ہوئی غیر سے محفل تو کیا

شرم بھی جائے تو میں جانوں کہ تنہائی ہوئی

نامعلوم

کٹ تو جائے گی یہ شبِ ہجراں

وہ نہ آئے تو زیست بھی شب ہے

اشوک ساہنی