بہار-و-خزاں

مل ہی جائے گی کہیں ، ڈھونڈھنے والوں کو مگر

ہر گلستاں میں خزاں ہو ، یہ ضروری تو نہیں

نامعلوم

نہ خزاں میں ہے کوئی تیرگی ، نہ بہار میں کوئی روشنی

یہ نظرنظر کے چراغ ہیں ، کہیں جل گئے کہیں بجھ گئے

نامعلوم

بہار آپ کے پیکر کا ایک سایہ ہے

جدھر ہوں آپ خراماں ، ادھر بہار چلے

سید اعجاز

خزاں نے پھولوں سے چن چن کے انتقام لیا

خطا یہ ہے کہ بہاروں میں مسکرائے تھے

جوہر

کلیاں یہ کس کے خوف سے پژمردہ ہو گئیں

آمد بہار کی ہے کہ آمد خزاں کی ہے

نعیم غازی

خوں ٹپکتا ہے ،لالہ و گل سے

اس سے بہتر ، خزاں کا موسم تھا

اشوک ساہنی