دعا-دوا-شفا

باقی مرے حصہ میں بس دو ہی تو باتیں ہیں

جینے کی دعا دینا ، مرنے کی دعا کرنا

میر

تو بڑا رحیم و کریم ہے مجھے یہ صفت بھی عطا کرے

اسے بھولنے کی دعا کروں ، تو مری دعا میں اثر نہ ہو

بشیر بدر

عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا

درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا

مرزا غالب

اٹھتے نہیں ہیں اب تو دعا کے لئے بھی ہاتھ

اس درجہ ناامید ہیں پروردگار سے

اختر شیرانی

سب کچھ خدا سے مانگ لیا ، تجھ کو مانگ کر

اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے ، اس دعا کے بعد

نامعلوم

میری دعائیں ہو نہ سکیں اس لئے قبول

شاید وہ ان دعاؤں کا حقدار ہی نہ تھا

اشوک ساہنی