اک قبر کا چراغ ہے ، اک دل کا داغ ہے
اس کو جلا دیا کبھی اس کو جلا دیا
ریاض
آبگینوں کی طرح دل ہیں غریبوں کے شمیمؔ
ٹوٹ جاتے ہیں ، کبھی توڑ دئے جاتے ہیں
شمیم جےپوری
یوں گھٹ کے رہ گئی ہے ہر اک آرزو حفیظؔ
سینے میں جیسے دل نہیں ، اب دل کی لاش ہے
حفیظ جالندھری
شیشۂ دل کی نزاکت کا ہمیں احساس ہے
حشر کیا ہوگا اگر ، پتھر سے ٹکرا جائے گا
مخمور دہلوی
وہ دل جو تھا ، امید و تمنا کا سہارا
گرتی ہوئی دیوار ہے ، معلوم نہیں کیوں
عرش ملسیانی
تمنا ڈھونڈھتی پھرتی ہے جس کو
مرے پہلو میں اب وہ دل کہاں ہے
عرش ملسیانی
دل نے مجھے تڑپایا ، آنکھوں نے کیا رسوا
اپنوں سے ہوا یہ سب ، بیگانوں سے کیا ہوتا
داغ دہلوی
ہم لگا لیتے ہیں ، کانٹوں کو بھی دل سے اپنے
لوگ بےرحم ہیں پھولوں کو مسل دیتے ہیں
اشوک ساہنی