دل ٹوٹنے سے تھوڑی سی تکلیف تو ہوئی
لیکن تمام عمر کا آرام ہو گیا
نامعلوم
درد و غم دل کی طبیعت بن گئے
اب یہاں آرام ہی آرام ہے
جگر
تعجب کیا ، لگی گر آگ ، اے سیمابؔ سینے میں
ہزاروں دل میں انگارے بھرے تھے ، لگ گئی ہوگی
سیماب
دل کے آئینہ میں ہے تصویرِ یار
اک ذرا گردن جھکائی ، دیکھ لی
نامعلوم
پہلے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر ، نہیں آتی
مرزا غالب
باقی نہ دل میں کوئی ، یا رب ہوس رہے
چودہ برس کے سن میں ، وہ لاکھوں برس رہے
امیر مینائی
دل دے تو اس مزاج کا پروردگار دے
جو رنج کی گھڑی بھی خوشی سے گزار دے
داغ دہلوی
جا رہے ہو گر ، نگاہیں پھیر کر
یہ شکستہ دل بھی لیتے جائیے
اشوک ساہنی