یہ جان کر کہ موت ہے منزل حیات کی
ناکامیٔ حیات کا ماتم نہیں کیا
وشواناتھ درد
طولِ غم سے زندگی گھبرا گئی
موت کو بھی موت شاید ، آ گئی
ساحر بھوپالی
ہم موت کے احساس سے لرزاں کیوں ہوں
یوں بھی بنتی ہے ہر اک چیز بگڑنے کے لئے
سوز
موت کے نام سے مجھ کو نہ ڈرا اے ناصح
اب تو جینے سے طبیعت مری گھبراتی ہے
یقین
حسینوں کی تو عادت ہے ادا سے جان لینے کی
قضا کہتی ہے مجھ کو ، مفت میں بدنام کرتے ہیں
جلیل
زندگی میں موت ہے ، یا موت میں ہے زندگی
زندگی آوارگی کا ، موت گھر جانے کا نام
اعظم
ازل سے زندگی کیا مانگتے ہم
ازل خود ہی کانپتی ہے زندگی سے
رتن
میں کروں شکوہ سکایت کس سے
مجھ کو میری حیات نے مارا
اشوک ساہنی